AD Banner

{ads}

(گبرو محمد ﷺ کہنا کیساہے؟)

 (گبرو محمد ﷺ کہنا کیساہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فر ما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ گبرو محمد اور گبرو مصطفی کہنا کیسا ہے؟نیز یہ جملہ سن کر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا واہ واہ کرنا کیسا ہے؟المستفتی:۔محمد توصیف رضا حنفی بارہ بنکی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب  بعون الملک الوہاب

چونکہ گبروکا لغوی معنی ہے۔نوجوان،نوخیز،دولھا،نوشہ،یعنی معنوی اعتباار سے خرابی نہیں ہے لہٰذا ممبر پر واہ واہ کہنے والوں پر یا مقرر پر کو ئی حکم نہ ہوگا ۔البتہ عرف عام میں یعنی کچھ علاقوں میںگبرو، کم عقل ،کند ذہن ،بھدّے قسم کے انسان کو کہتے ہیں لہٰذا گبرو محمد ﷺ نہیں کہنا چا ہئے جیسے راعنا کہنا منع کردیاگیا،تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم   کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے ’’ رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ ‘‘اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْم‘‘اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔(سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۰۴)

یعنی اس آیت میں ’’راعنا‘‘کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ’’ اُنْظُرْنَا ‘‘  کہنے کا حکم ہوا ۔ ( قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ:۱۰۴  ، ۱  ؍۴۴  ؍۴۵  ، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴  ، ۱  ؍ ۶۳۴  ، تفسیر عزیزی مترجم ۲   ؍ ۶۶۹  ، ملتقطاً ) 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔

 (صراط الجنان بقرہ ۱۰۴)واللہ اعلم بالصواب

کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحدی 


فتاوی مسائل شرعیہ 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads