AD Banner

{ads}

(کیا حضور کی تعظیم فرض ہے؟)

 (کیا حضور کی تعظیم فرض ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم ہرمسلمان پرلازم ہے تو یہ تعظیم فرض ہے یا واجب؟ اوریہ بھی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں پرجوچیزیں فرض کی ہیں مثلاً نماز روزہ وغیرہ توکیا اس سے بھی زیادہ تعظیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے؟اگر ضروری ہے توکیا اب بھی ضروری ہے؟       المستفتی:سعید احمد بڑواہ ایم پی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جزو ایمان ورکن ایمان ہے بعدایمان رسول اللہ صلی اللہ کی تعظیم کرنا ہرفرض سے مقدم ہے جیساکہ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم یعنی اعتقادِ عظمت جزو ِایمان و رکنِ ایمان ہے اور فعلِ تعظیم بعد ایمان ہر فرض سے مقدّم ہے، اِس کی اہمیت کاپتا اس حدیث سے چلتا ہے کہ غزوۂ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نمازِ عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ کے زانو پر سرِ مبارک رکھ کر آرام فرمایا، مولیٰ علی نے نمازِ عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اِس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خوابِ مبارک میں خلل آئے، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا، جب چشمِ اقدس کھلی مولیٰ علی نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے حکم دیا، ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا، مولیٰ علی نے نماز ادا کی پھر ڈوب گیا، اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز اور وہ بھی صلوٰۃِ وُسطیٰ نمازِ عصر مولیٰ علی نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند پر قربان کر دی، کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)ہی کے صدقہ میں ملیں ۔

دوسری حدیث اسکی تائید میں یہ ہے کہ غارِ ثور میں پہلے صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گئے، اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے سوراخ بند کر دیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا، اُس میں پاؤں کا انگوٹھا رکھ دیا، پھر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلایا، تشریف لے گئے اور اُن کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر آرام فرمایا، اُس غارمیں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اُس نے اپنا سَر صدیقِ اکبر کے پاؤں پر مَلا، انھوں نے اِس خیال سے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا، آخر اُس نے پاؤں میں کاٹ لیا، جب صدیقِ اکبر کے آنسو چہرۂ انور پر گرے، چشمِ مبارک کھلی، عرضِ حال کیا، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے لعابِ دہن لگا دیا فوراً آرام ہوگیا ، ہر سال وہ زہر عَود کرتا، بارہ۱۲  برس بعد اُسی سے شہادت پائی۔(بہار شریعت حصہ اول)

نیز فرما تے ہیں کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی تعظیم و توقیر جس طرح اُس وقت تھی کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اِس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرماتھے، اب بھی اُسی طرح فرضِ اعظم ہے، جب حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کاذکر آئے توبکمالِ خشوع و خضوع و انکسار وباادب سُنے، اور نامِ پاک سُنتے ہی درود شریف پڑھنا واجب ہے(ایضا)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

محمد ابراہیم خان امجدی قادری 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads