AD Banner

{ads}

(کیا موسی علیہ السلام نے ملک الموت کو طمانچہ ماراہے؟ )

 (کیا موسی علیہ السلام نے ملک الموت کو طمانچہ ماراہے؟ )

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علما ئے کرام اس مسئلہ میںکہ کیایہ واقعہ درست ہے کہ موت کا فرشتہ آیا اور سلام نہیں کیا موسی علیہ السلام کے پاس ،تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نےفرشتہ کوطمانچہ لگایا تو آنکھ نکل گئی برائے کرم جواب عنایت کریں     المستفتی:۔ عبد الرحمن 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نےحضرت ملک الموت کے چہرے پرطمانچہ رسیدکیامگرسلام نہ کرنے کی وجہ سےنہیں بلکہ آداب تکلم بارگاہ نبی کےلئے۔ حدیث شریف میں ہے عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺجاءملک الموت الیٰ موسیٰ بن عمران فقال لہ اجب ربک قال فلطم موسیٰ عین ملک الموت ففقأھاقال فرجع الملک الیٰ اللہ فقال انک ارسلتنی الیٰ عبدلک لایریدالموت وقدفقأعینی قال فرداللہ الیہ عینہ وقال ارجع الیٰ عبدی فقل الحیوٰةتریدفان کنت تریدالحیوٰةفضع علیٰ متن ثورفماتوارت یدک من شعرہ فانک تعیش بھاسنةقال ثم مہ قال ثم تموت قال فالاٰن من قریب(متفق علیہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ملک الموت حضرت موسی بن عمران علیہ السلام کے پاس آئے ان سےکہاکہ آپ اپنےرب کابلاوا قبول کیجئے (سرکار) فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے ملک الموت کی آنکھ پر طمانچہ مار دیا انہیں نابینا کر دیا وہ فرشتہ رب تعالیٰ کی طرف واپس ہوا عرض کیا کہ تو نے مجھے اپنے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا اور اس نے میری آنکھ بیکار کر دی سرکار فرماتے ہیں اللہ نے ان کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا میرے بندے کی طرف لوٹو ان سے کہو کہ آپ زندگی چاہتے ہیں ؟ اگر زندگی چاہتےہیں تو اپنا ہاتھ بیل کی کھال پر رکھئے آپ کا ہاتھ جتنےبالوں کوڈھکےگاہر بال کے عوض اللہ عمربڑادیگا حضرت موسی کہتےہیں بعدہ کیا ہوگا حضرت ملک الموت کہتے ہیں موت ، حضرت موسیٰ فرماتے ہیں جب جانا ہی ہے تو ابھی لے چلو۔(بخاری ،مسلم،مشکوٰۃشریف ص ۵۰۷؍۵۰۸)

اس حدیث کی شرح میں علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ملک الموت کو طمانچہ مارا ان کو نبی کا ادب سکھانے کے لئےکہ کوئی شخص نبی سے یہ نہ کہے کہ نماز پڑھ لیجئے مسجد میں آئیے تو اس میں ایک طرح کا حکم ہے اور حضرات انبیائے کرام حاکم ہوتے ہیں کسی بندے کے ماموریامحکوم نہیں ہوتے نیز نبی تو ہر وقت ہی رب کے مطیع فرماں بردار ہوتے ہیں ان سے کہناکہ اللہ کی اطاعت کریں اسکا مطلب انہیں غیرمطیع ماننا، (جوقطعاجائزنہیں)نبی کا ادب یہ تھا کہ ملک الموت عرض کرتے کہ آپ کو یہاں رہنے اور چلنے کا اختیار ہے اگر اجازت ہو تو میں تعمیل ارشادکروں اس لیے کہ انبیاء اللہ تعالی کی طرف سے موت و حیات کے مختار ہوتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی بھی نبی علیہ السلام چاہتے تو دنیا میں سب دن حیات ظاہری میں رہتے۔(مرٕاۃ جلدہفتم ص۵۸۱)واللہ تعالی اعلم 

کتبہ 

عبید اللہ رضوی بریلوی 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads