AD Banner

{ads}

(بعد وصال انبیائے کرام و اولیائے کرام سے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟)

 

 (بعد وصال انبیائے کرام و اولیائے کرام سے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بعد وفات نبیوں صحابیوں اور ولیوں کو مدد کے لئے پکارنا جائز ہے یا نہیں؟قرآن کی آیات و احادیث کریمہ سے جواب عنایت فرمائیں

 المستفتی:۔م محمد مستجاب نعیمی پالی راجستھان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

  بعد وفات انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، و اولیاء کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے مدد مانگنا بلا شبہ جائز ہے جب کہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور یہ سب حضرات اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شیٔ کا حقیقی مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرہ کا بھی مالک و مختار نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے  اپنے  پیارے حبیب ﷺ کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور حضو ر اکرم ﷺ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام و اولیائے عِظام اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے (یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے ) مدد فرما سکتے  ہیں۔ جیسا کہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ"  تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔(کنز الایمان ،سورۃ التحریم، پارہ ۲۸، آیت ۴)

حدیث شریف میں ہے: حضرت سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں ’’جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے  یوں پکارے اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، کہ اللّٰہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔

 ( معجم کبیر جلد ۱۵، صفحہ ۱۱۷، حدیث نمبر ۲۹۰)

اور فتاویٰ فیض الرسول میں ہے بزرگان دین کے مزارات اور ان کی ذات سے وسیلہ جائز ہے۔ اور حضور ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے روضہ اقدس سے مختلف طریقے سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو الجوزاء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں "قال قحط اھل مدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الیٰ عائشۃ فقالت انظر و اقبر النبی ﷺ فاجعلوا منہ کوی الی السماء حتی لایکون بینہ وبین السماء سقف ففعلوا مطروا مطرا حتی نبت العشب سمنت الابل حتی لفتقت من الشحم فسمیٰ عام الفتق"یعنی حضرت ابو جوزاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں سخط قحط پڑ گیا لوگوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی جانب چھت میں سوراخ کردو یہاں تک کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان حجاب نہ رہے پس انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس زور کی بارش ہوئی کہ خوب سبزہ اگا اور اونٹ فربہ ہوگئے یہاں تک کہ ان کی چربی پھٹی پڑتی تھی تو اس سال کو خوشحالی کا سال کہا جانے لگا۔ (دارمی، مشکوٰۃ صفحہ ۴۵۵) 

اور امام بیہقی وابن ابی شیبہ نے مالک الدار سے روایت کی ہے "اصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل (بلال بن حارث مزنی صحابی) الیٰ قبر النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ استسق اللہ لامتک فانھم قد ھلکوا فاتاہ رسول اللہ ﷺ فی المنام فقال ائت عمر فاقراہ السلام واخبرھم انھم سیسقون"  یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا تو ایک صحابی یعنی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے مزار اقدس پر حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے پانی مانگئے کہ وہ ہلاک ہورہے ہیں ،رسول اللہ ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا عمر کو جاکر سلام کہو اور لوگوں کو خبر کردو کہ جلد پانی برسنے والا ہے۔ 

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرۃ العینین میں اس حدیث کو نقل کرکے لکھا کہ رواہ عمر فی الاستیعاب اور امام قسطلانی نے مواہب میں فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اور حضرت امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا: کہ جس سے زندگی میں مدد طلب کی جاتی ہے اس سے اس کی وفات کے بعد بھی مدد طلب کی جاسکتی ہے۔ 

مشائخ میں سے ایک نے فرمایاکہ میں نے بزرگوں میں سے چار شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے قبروں میں ویسے ہی تصرف کرتے ہیں جیسے اپنے زندگی میں یا کچھ زیادہ شیخ معروف کرخی و شیخ عبدالقادر جیلانی اور دوسرے حضرات کو اور مقصود حصر نہیں ہے جو خود دیکھا پایا کہا۔

اور سیدی احمد بن مرزوق جو عظماء فقہاء وعلماء ومشائخ مغرب میں سے ہیں انہوں فرمایا کہ ایک دن شیخ ابو العباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے یا فوت شدہ کی میں نے کہا کہ ایک قوم کہتی ہے کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں فوت شدہ کی امداد زیادہ قوی ہے توشیخ ابوالعباس نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ بارگاہ حق میں ہے اور اس کے حضور میں اور اس گروہ سے اس معنیٰ کی نقل حصر و احصار کی حد سے باہر ہے اور کتاب و سنت نیز اقوال سلف میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو اس کے منافی ہو۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۷۱۷)

اور کتاب و سنت میں جب کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو غیر اللہ سے استمداد کے منافی ہو تو یہی قرآن و حدیث سے اس کے جواز کی اصل ہے۔

(ماخوذ ازفتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۴۸۲ تا ۴۸۴)

مذکورہ بالاحوالوں سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام وصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین و اولیائے کرام علیہم الرحمہ سے بعد وفات بھی مدد مانگنا جائز و درست ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

غلام محمد صدیقی فیضی



فتاوی مسائل شرعیہ 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads