AD Banner

{ads}

(کیا انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ؟)

 (کیا انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ انبیائےکرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں یہ کہاں سے ثابت ہے؟ مدلل جواب عطا فرمائیں مہربانی ہوگی۔   

المستفتی:۔معین الدین نقشبندی رون شریف ضلع ناگور شریف اجمیر راجستھان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الحمد للہ رب العلمین الصلوٰۃ والسلام علی جمیع الانبیاءوالمرسلین وخاتم النبیین وعلیٰ الہ واصحابہ واہل بیتہ اجمعین 

بے شک انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں رزق دئے جا تے ہیں اور یہ قرآن و احادیث سے ثابت ہے وہابیوںدیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ حضور  ﷺ مرکر مٹی میں مل گئے معاذ اللہ یہ قرآن و احادیث کےخلاف ہے کیوں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے جسم کو مٹی نہیں کھا سکتی مروی ہے کہ حضرت داؤد  عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بیتُ المَقْدِس کی بنیاداس مقام پر رکھی تھی جہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا خیمہ نصب کیا گیا تھا ۔اس عمارت کے پورا ہونے سے پہلے حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا وقت آگیا تو آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے فرزندِ اَرْجْمند حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کی تکمیل کی وصیت فرمائی ،چنانچہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے جِنّات کو اس کی تکمیل کا حکم دیا۔ جب آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے دعا کی کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات جنات پر ظاہر نہ ہوتاکہ وہ عمارت کی تکمیل تک مصروفِ عمل رہیں پھر ہوا بھی یہی کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا وصال ہو گیا اور آپ اسی طرح لاٹھی کے سہارے سالوں کھڑے رہے جس سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بعد وصال مٹی میں نہیں ،ملتے بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جا تے ہیں ورنہ ایک سال میں جسم سڑ جاتا بد بو آ نے لگتی مگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے جسم میں ذرہ برابر بھی تغیر نہ ہوا، جنات رات ودن کام کرتے رہے جب کام مکمل ہو گیا تو حکم الٰہی سے دیمک نےاس لکڑی کوجس پر ٹیک لگا ئے ہو ئے تھے کھالیا پھر آپ زمین پر آگئے چنانچہ ارشاد ربا نی ہے’’ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗۚ-فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ‘‘پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آیا جنوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے۔(کنز الایمان ،سورہ سبا آیت نمبر ۱۴)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بارگاہِ الٰہی میںدعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّا ت پر ظاہر نہ ہوتا کہ انسانوںکو معلوم ہوجائے کہ جن غیب نہیں جانتے، پھر آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممحراب میں داخل ہوئے اور حسب ِعادت نماز کے لئے اپنے عصا کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے ۔جِنّا ت دستور کے مطابق اپنی خدمتوں میںمشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت سلیمانعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزندہ ہیںاورحضرت سلیمان عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عرصۂ دراز تک اسی حال پر رہنا اُن کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیںہوا، کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامایک ماہ، دوماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیںاور آپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نماز بہت لمبی ہوتی ہے، حتّٰی کہ آپ  عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کے پورے ایک سال بعدتک جنات آپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات پر مُطَّلع نہ ہوئے اوراپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیمک نے آپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا عصا کھالیااورآپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر تشریف لے آیا۔ اس وقت جِنّا ت کو آپ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کا علم ہوا ( خازن، سباء، تحت الآیۃ: ۱۴  ،۳  / ۵۱۹   بحوالہ تفسیر صراط الجنان سورہ سبا آیت نمبر ۱۴)

معلوم ہوا کہ انبیائے کرام بعد وصال مٹی میں نہیں ملتے بلکہ وہ زندہ جا وید ہو تے ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق پا تے ہیں نیز نماز بھی پڑھتے ہیں جیسا کہ معراج کی شب حضور  ﷺ نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ۔حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَرْتُ عَلَی مُوسٰی وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ عِيسَی مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا میں حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ حضرت موسیٰ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں گزرا۔(صحیح مسلم موسیٰ (علیہ السلام) کے فضائل کا بیان حدیث نمبر۶۱۵۸)

اور سنن نسا ئی میں ہے ’’‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ‘‘حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایاجس رات مجھے معراج ہوئی میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سرخ ٹیلے کے پاس آیا، اور وہ کھڑے اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔

(سنن نسائی ،حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کا طریقہ نماز کا بیان حدیث نمبر۱۶۳۲)

یونہی معراج کی شب حضور  ﷺنے انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرما ئی اور آسمانوںپر دیگر انبیائے کرام علیہم السلام  سے ملاقات ہو ئی جو زندہ ہونے کی روشن دلیل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربا ما كربت مثله فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلي . فإذا رجل ضرب جعد كأنه أزد شنوءة وإذا عيسى قائم يصلي أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي فإذا إبراهيم قائم يصلي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاة فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل : يا محمد هذا مالك خازن النار فسلم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام  . رواه مسلم ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا کہ میں نے اپنے کو حطیم میں دیکھاقریش مجھ سے میرے سفر معراج کے متعلق سوالات کر رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی ایسی چیزوں کے متعلق سوالات کیے جو مجھے یاد نہ رہی تھیں تو میں اتنا غمگین ہوا جتنا کبھی نہ ہوا تھا تو الله نے میرے سامنے اسے کردیا میں اسے دیکھ رہا تھا وہ کسی چیز کے متعلق مجھ سے نہ پوچھتے تھے مگر میں انہیں بتا دیتا تھااور میں نے اپنے کونبیوں کی جماعت میں دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے وہ درمیانہ قد گھونگریلے بال والے ہیں گویا وہ شنوءہ کے لوگوں میں سے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ان سے قریبًا ہم شکل عروہ ابن مسعود ثقفی ہیں اورا براہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے سب میں زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب یعنی میں ہوں پھر نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے انکی امامت کی پھر جب نماز سے میں فارغ ہوگیا تو مجھ سے کسی کہنے والے نے کہا اے محمد یہ آگ کے خزانچی مالک ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے ان کی طرف توجہ کی تو انہوں نے مجھے سلام کرنے سے ابتداء کی۔(مشکوٰۃ المصابیح معراج کا بیان ص ۵۲۹؍۵۳۰؍حدیث نمبر ۵۷۹۰)

یعنی ہم معراج میں دوران سفر انبیاءکرام کی قبروں پر گزرے تو موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔حضور انور نے معراج میں چار بار انہیں کو دیکھا اولًا گزرتے ہوئے ان کی قبروں میں انہیں دیکھا،پھر بیت المقدس میں جہاں سب نے حضور کے پیچھے نماز پڑھی،پھرآسمانوں میں اپنے مقامات پر،پھر واپسی معراج میں اپنے مقامات پر یہاں پہلی ملاقات کا ذکر ہے۔معلوم ہوا کہ انبیاءکرام اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں وہ زندہ ہیں مگر یہ نماز تکلیفی نہیں لذت و فرحت کی ہے۔(مراۃ المناجیح جلد۷؍معراج کا بیان ص۱۵۰؍نعیمی کتب خانہ گجرات )

ارشاد باری تعا لیٰ ہے ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (کنز الایمان ،سورہ انبیاء آیت نمبر ۱۰۷)

سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’قال عز مجدہ وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اوراے! محبوب ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

عالَم ماسوائےاللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلینﷺان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں  پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔ (فتاوی رضویہ جلد۳۰ ؍ص۱۴۱؍ دعوت اسلامی )

  معلوم ہوا کہ حضور ﷺ اول سے آخر تک سب کے لئے رحمت ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جب تک عالم ہے حضور ﷺ باحیات ہیں کیونکہ جو مرکر مٹی میں مل جا ئے گا معاذ اللہ وہ رحمت کیسے دےسکتا ہے یعنی یہ آیت بھی حضور  ﷺ کی حیات پر روشن دلیل ہے۔

ارشاد با ری ہے ’’ وَ لَااَنْ تَنْكِحُوْا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ    ۤ  اَبَدًا اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا‘‘اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے (کنز الایمان ،سورہ احزاب ۳۳آیت نمبر ۵۳)

یہ آیت بھی حیات مصطفیٰ ﷺ پر روشن دلیل ہے کیونکہ انتقال کے بعد بیوی نکاح سے باہر ہوجا تی ہےاور بعد عدت نکاح درست ہوجا تا ہےمگر یہاں منع ہے کیونکہ زندوں کی بیوی سے شادی حرام ہے ’’قال اللہ تعا لیٰ والمحصنت من النساء ‘‘تو ماننا پڑے گا کہ حضور  ﷺ ابھی با حیات ہیں اور ازواج مطہرات بعد وصال حضور  ﷺ کے نکاح میں ہی ہیں۔بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالاہے کہ حضور ﷺ کی بیویاں مؤمنوں کی ماں ہیں اس لئے نکاح حرام ہے ۔حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ احتراماً ماں کہا گیا ہے نہ کہ احکاماًاور اگراحکاماً ماں ہی معنی مراد ہوتا تو بعد طلاق حضور  ﷺ کی بیویوں سے نکاح جائز نہ ہوتا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہی حرام ہوتاکیونکہ باپ کی مطلقہ یعنی ماں سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجا تا ہےمگر ایسا نہیں ہے بلکہ بعد طلاق ازواج مطہرات سے نکاح جائز ہے کیونکہ بعد طلاق عورت نکاح سے نکل جا تی ہے ارشاد ربا نی ہے’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا(۲۸)وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘اے غیب بتانے والے (نبی) اپنی بیبیوں سے فرمادے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں ۔ اور اگر تم الله اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بیشک الله نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔(سورہ احزاب ۳۳؍آیت نمبر ۲۸؍۲۹)

ارشاد ربانی ہے ’’وَ سْــئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ‘‘اور اُن سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے کیا ہم نے رحمٰن کے سوا کچھ اَور خدا ٹھہرائے جن کو پوجا ہو۔(کنز الایمان ، سورہ زخرف آیت نمبر ۴۵)

حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سارے انبیاء(علیہم السلام)حضور ﷺ کی ولادت سے پہلے تشریف لائے اور اللہ تبارک و تعا لیٰ جل شانہ اپنے محبوب سے فرماتا ہے اے محبوب ان تمام انبیاء سے پوچھو مطلب تمام انبیائے کرام علیہم السلام با حیات ہیں جبھی تو پوچھنے کا حکم ہورہا ہے ورنہ مردوں سے کون پو چھتایعنی یہ آیت بھی دلیل ہے کہ انبیا ئے کرام علیہم السلام باحیات ہیں بس فرق اتنا ہے کہ ہم انہیںدیکھ نہیں سکتے  یعنی ہماری آنکھوں میں اتنی بصارت نہیں ہے ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ سارے نبی زندہ ہیں وہ اپنی قبروں میں پا بند نہیں ۔عالم کی سیر کرسکتے زندہ مقبول بندوں سے کلام کرلیتے ہیں ان کے سوالوں کا جواب بھی دے دیتے ہیںکیونکہ یہاں یہ نہ فرمایا گیا کہ خط یا تار کے ذریعہ ان سے پوچھ لو نہ یہ کہ ان کی قبروں سے جا کر پو چھ لو نہ نبی کریم  ﷺ ان  (انبیائے کرام علیہم السلام )کے مزارات پر کبھی گئے ۔یہی مطلب ہے کہ اے پیا رے وہ حضرات تمہا رے پاس آ تے ہی رہتے ہیں آپ ان سے ملتے ہی رہتے ہیں معراج میں وہ آئے حج وداع میں وہ شریک ہو ئے آپ ان سے کبھی پو چھ لیں ۔یہ آیت حیات الانبیاء کے لئے ایسی صریح ہے جس میں تاویل کی گنجا ئش نہیں کیونکہ نہ نبیوں کی امتوں سے پو چھنا مراد ہے نہ ان کی کتابوں سے کیونکہ ان کی امتیں فنا یا مشرک ہو چکی تھیں اور ان کی کتابیں یا ختم ہو چکی تھیں یا محرف ۔ جن میں کفر و شرک بھرا ہوا تھا(رسائل نعیمیہ ص ۴۵۸)

سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام حیات حقیقی دنیاوی روحانی جسمانی سے زندہ ہیں، اپنے مزارات طیبہ میں نمازیں پڑھتے ہیں، روزی دئے جاتے ہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جاتے ہیں، زمین وآسمان کی سلطنت میں تصرف فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں’’الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون‘‘حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنے مزارات میں زندہ ہیں اور نماز ادافرماتے ہیں۔ (شرح الصدور باب احوال الموتٰی فی قبورھم خلافت اکیڈمی مینگورہ سوات ص۷۸؍مجمع الزوائد باب ذکر الانبیاء علیہم السلام دارالکتب العربی بیروت ۸/ ۲۱۱)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں’’ان ﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزق‘‘بیشک اللہ تعالٰی نے حضرات انبیاء علیہم السلام کے اجساد مبارکہ کا زمین پرکھانا حرام فرمادیاہے اللہ کے نبی زندہ ہیں اور رزق دئے جاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ آخر کتاب الجنائز ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۹)

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں’’اذن اللانبیاء ان یخرجوا من قبورھم و یتصرفوا فی ملکوت السمٰوٰت و الارض‘‘حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کےلئے مزارات سے باہر جانے اور آسمانوں اور زمین میں تصرف کی اجازت ہوتی ہے ( الحاوی للفتاوٰی رسالہ تنویر الحلک دارالفکر بیروت ۲/ ۲۶۳؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۴ ؍ص ۶۸۶؍دعوت اسلامی )

نیز فرما تے ہیں ’’وانما حیاۃ الانبیاء اعلٰی واکمل واتم من الجمیع لانھا للروح والجسد علی الدوام علی ماکان فی الدنیا‘‘شہداء کی زندگی بہت اعلی ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلی ہے اس لئے کہ وہ جسم وروح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی۔

(فتاوی رضویہ جلد ۹ ؍ص۴۳۳؍ دعوت اسلا می )

یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جا تا ہے کیونکہ ترکہ مرنے کے بعد تقسیم ہو تا ہے نہ کہ زندوں کا جیسا کہ حدیث شریف میں’’ ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ‘‘حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی نہ بانٹیں (میرا ترکہ تقسیم نہ کریں) میں جو چھوڑ جاؤں اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہ اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے۔( صحیح بخاری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات کے نفقہ کا بیان حدیث نمبر۳۰۹۶)

معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام زندہ ہیں اور اسکا ثبوت حدیث شریف سے بھی ہے جیسا کہ مشکوۃ شریف میں ہے ’’عَنْ اَبِی دَرْدَائِ  قَالَ قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ  ﷺ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأ کُلَ اَجْسَا دَالْاَنْبِیَآ  ئِ فَنَبِیُّ اللّٰہَ حَیٌّ یُرْ زَقُ‘‘حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرما یا کہ خدا ئے تعالیٰ نے زمین پر انبیا ئے کرام علیہم السلام کے جسموں کو کھا نا حرام فرما دیا لہٰذا اللہ کے نبی زندہ ہیں اور رو زی دئے جا تے ہیں۔ 

( ابن ماجہ جلد اول صفحہ ۷۶، مشکوٰۃ  باب الجمعہ الفصل الثا لث صفحہ ۱۲۱ )

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فر ما تے ہیں۔ (پیغمبر خدا زندہ است بحقیقت حیات دنیاوی )یعنی خدا ئے تعالیٰ کے پیغمبر دنیوی زندگی کی حقیقت کے سا تھ زندہ ہیں۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۵۷۶) 

نیز مشکوۃ ص ۱۲۰؍ پر ہے’’عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قَالَ قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ  ﷺ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجْسَا دَالْاَنْبِیَا ئِ‘‘حضرت اوس رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرما یا کہ خدا ئے تعا لیٰ نے زمین پر انبیا ئے کرام علیہم السلام کے جسمو ں کو کھا نا حرام فرما دیا ۔(نسا ئی جلد اول صفحہ ۲۰۴ ،مشکوٰۃ  باب الجمعہ الفصل الثا نی صفحہ ۱۲۰ )

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرما تے ہیں کہ ’’ان الانبیاء فی قبو رھم احیاء‘‘یعنی انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں رز ق دئے جا تے ہیں 

(مرقاۃ جلد دوم ۲۰۹)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فر ما تے ہیں(کہ حیات  انبیا ء متفق علیہ است ہیچ کس را دروےخلاف نیست حیات جسمانی دنیاوی حقیقی نہ حیات معنوی روحانی چناںکہ شہدا ئے راست) یعنی انبیائےکرام علیہم السلام زندہ ہیں اور انکی زندگی سب مانتے آئے ہیں کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے ۔انکی زندگی جسمانی حقیقی دنیا وی ہے شہیدوں کی طرح صرف معنوی اور روحا نی نہیں ہے۔  (اشعت اللمعات جلد اول صفحہ ۴۷۵)

حضرت شیخ حسن بن عمار شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب نور الایضاح کی شرح ’’مراقی الفلاح‘‘ میں تحریر فرما تے ہیں ’’ومما ھو مقرر عند المحققین انہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حی یر زق ممتع بجمیع الملاذ والعباد ات غیر انہ حجب عن ابصار القا صرین عن شریف المقات ‘‘یعنی یہ بات ارباب تحقیق علماء کے نزدیک ثا بت ہے کہ سرکار اقدس  ﷺ (حقیقی دنیوی زندگی کے ساتھ)زندہ ہیں ان پر روزی پیش کی جا تی ہے تمام لذت والی چیزوں کا مزااور عبادتوں سے سرور پا تے ہیں لیکن جو لوگ کہ بلند درجوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں ان کی نگاہوں سے اوجھل ہیں ۔(مع طحطاوی مصری ۴۴۷)

اور نسیم الریاض شرح شفا قاضی عیاض جلد اول ص ۱۷۴؍میں ہے ’’الانبیاء علیہم السلام اھیاء فی قبورھم حیاۃ حقیقۃ ‘‘یعنی انبیائے کرام علیہم السلام حقیقی زندگی کے ساتھ اپنی  قبروں میں زندہ ہیں۔

اور مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے ’’انہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم حی یر زق ویستمد منہ المدد المطلق ‘‘یعنی بے شک حضور ﷺ با حیات ہیں اور انہیں روزی پیش کی جا تی ہے اور ان سے ہر قسم کی مددطلب کی جا تی ہے ۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب المناسک الحدیث ۲۷۶۵؍ج ۵؍ ص ۶۳۲)

  اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے اپنے مکتوب’’ سلوک اقرب السبل بالتوجہ الی سید الرسل مع اخبار الاخیار ‘‘مطبوعہ رحیمہ دیو بند ص ۱۶۱؍میں فرمایا کہ ’’علمائے امت میں اتنے اختلافات وکثرت مذاہب کے با وجود کسی شخص کو اس مسئلہ میں کو ئی اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت  ﷺ حیات (دنیوی)کی حقیقت کے ساتھ قائم اور باقی ہیں ۔اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیز ش اور تاویل کا وہم نہیں ہے اور امت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں ۔نیز طالبان حقیقت کے لئے اور ان لوگوں کے لئے کہ آنحضرت  ﷺ کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے اور ان کے مربی ہیں ۔(بحوالہ انوار الحدیث ص ۲۹۲؍ ۲۹۳)

اورمفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ ہم پہلےعرض کرچکے ہیں کہ نبی کے جسم کو نہ مٹی کھا سکتی ہے نہ کوئی جانور۔یعقوب علیہ السلام کا فرمانا میں ڈرتا ہوں کہ یوسف کو بھیڑیا کھا جائے گا ظاہر یہ ہے کہ وہاں بھیڑئے سے مراد خود ان کے بھائی ہیں ورنہ پیغمبر کےجسم کو مٹی نہیں کھاتی۔ظاہر یہ ہے کہ یہ فرمان بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے اور نبی سے مراد جنس نبی ہیں۔مرقاۃ نے یہاں فرمایا کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں،نمازیں پڑھتے ہیں۔امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات بعد وفات مختلف وقتوں میں مختلف جگہ تشریف فرماہوتے ہیں یہ عقلًا نقلًا ہرطرح ثابت ہے۔

(۱)رب تعالٰی فرماتا ہے"وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا"یعنی اے محبوب!اپنے سے پہلے انبیاء سے یہ مسئلہ پوچھو۔معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاءحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زندہ ہیں کہ آپ ان سے بات چیت و سوال و جواب بھی کر سکتے ہیں۔

(۲)اور فرمایا ہے"وَ لَا اَنْ تَنْکِحُوْا اَزْوٰجَہٗ مِنۡۢ بَعْدِہٖ    ۤ   اَبَدًا"حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ان کی وفات کے بعد کبھی نکاح نہ کرو۔اس آیت نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی بیویاں بدستور ان کے نکاح میں رہتی ہیں بیوہ نہیں ہوتیں،ورنہ اَزْوٰجَہٗ نہ فرمایا جاتا،نیز ان سے نکاح کی حرمت ماں ہونے کی وجہ سے نہیں وہ بیویاں احترام میں مائیں ہیں نہ کہ احکام میں ورنہ ان کی میراث امت کو ملتی۔ان کی اولاد سے نکاح حرام ہوتا ہے یہ آیت حیات النبی کی کھلی دلیل ہے۔

(۳)شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ ا لسلام کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔جب سرکار بیت المقدس پہنچے تو انہیں اور سارے پیغمبروں کو وہاں نماز کا منتظر پایا اور پھر جب آسمانوں پر تشریف لے گئے تو چوتھے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام کو اور مختلف آسمانوں پر دیگر انبیاء کو اپنا منتظر دیکھا۔ان قرآنی آیات اور احادیث سے پتہ چلا کہ انبیائے کرام بعد وفات زندہ ہوتے ہیں بلکہ ان پر زندوں کے بعض احکام جاری ہوتے ہیں۔

(۴) ان کی بیویاں دوسرا نکاح نہیں کر سکتیں۔

(۵)ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔

(۶)حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر نمازی سلام عرض کرتا ہے۔

(۷)ہم کلمے میں پڑھتے ہیں محمد رسول اﷲ(محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں)اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو کہا جاتا کہ اﷲ کے رسول تھے۔غرض کہ اس حدیث کی تائید قرآنی آیات سےبھی ہے اور دیگر عقلی و نقلی دلائل سے بھی۔خیال رہے کہ آیت کریمہ"اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ"اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ وہاں موت سے مراد حسی موت ہےجس پر بعض احکام موت کے جاری ہوجاتے ہیں جیسےغسل،کفن،دفن،وغیرہ اور یہاں زندگی سےحقیقی زندگی مراد ہے،نیز وہاں آیات میں موت سے مراد ہے روح کا جسم سے علیحدہ ہوجانا اور یہاں زندگی سے مراد ہے روح کا جسم وغیرہ میں تصرف کرنا،جیسے ہماری سیلانی روح نیند میں جسم سے نکل کر جسم کو زندہ رکھتی ہے یوں ہی ان کی مقامی روح بوقت وفات جسم سے نکل کر بھی زندگی باقی رکھتی ہے۔لہذا نہ تو آیات متعارض ہیں اور نہ حدیث و قرآن میں کچھ تعارض اس لیئے اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میت الگ بولاگیا اور دوسرے کےلئے میتون علیحدہ،اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی دوسروں کی طرح ہوتی تو یوں فرمایا جاتا "اِنَّكَ وَ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ"

صوفیاء فرماتے ہیں کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم روح ہیں سارا عالم جسم ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم جڑ ہیں سارا عالم درخت ہے،ا گر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فنا ہوگئے ہوتے تو عالَم بھی ختم تھا۔جیسے درخت کی سبز شاخیں جڑ کی زندگی کا پتہ دیتی ہیں اور جسم کی حس و حرکت روح کا پتہ دیتی ہے ایسے عالَم کا قیام و بقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا پتہ دے رہا ہے۔دیکھو جسم کا سوکھا ہوا عضو سڑتا گلتا نہیں کہ ابھی روح سے وابستہ ہے اگر چہ بے کار ہوگیا ہے،ایسے ہی ہم گنہگاروں پر عذابِ الٰہی نہیں آتا کہ اگرچہ ہم بے کار ہیں مگر دامن مصطفے پاک سے وابستہ ہیں،رب تعالٰی فرماتاہے ’’اللہُ لِیُعَذِّ بَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ‘‘اگر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں نہ رہے ہوتے تو ہم پر عذاب آجانا چاہئے تھاہماری بدکاریوں کے سبب۔

(۸)حضرت سلیمان کے متعلق رب فرماتا ہے"مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗ"یعنی حضرت سلیمان بعد وفات عصا پر ٹیک لگائے کھڑے رہے بہت عرصہ کے بعد دیمک نے لاٹھی کھائی تب آپ کا جسم زمین پر آیا اسی عرصہ میں نہ جسم بگڑا نہ دیمک نے کھایا۔

(۹)وہ شہدا جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامانِ غلام ہیں جب ان پر فدا ہوکر زندہ جاوید ہوگئے تو خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیسی اہم ہے۔رزق سے مراد رزق حسی ہے یعنی جنتی میوے ان کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں جس سے وہ بہرا مند رہتے ہیں،جب ان کے غلام یعنی شہداء کی روحیں جنت میں پہنچتی ہیں،وہاں کے پھل کھاتی ہیں اور جب مریم کو دنیا میں جنت کے پھل دیئے گئے اور انہوں نے کھائے(قرآن مجید)تو انبیائےکرام خصوصًا سید الانبیاء کے رزق کا کیا پوچھنا۔اصحاب کہف اور ان کا کتا صدہا سال سے سو رہے ہیں،انہیں غیبی رزق بھی برابرپہنچ رہا ہے،سورج ان پر دھوپ نہیں ڈالتا۔دسمبر،جنوری،اور جون و جولائی ان پر سردی گرمی نہیں پہنچاتے،حضرات انبیاء بعد وفات ان سے اعلیٰ حسن والی زندگی رکھتے ہیں۔

(۱۰)حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد وفات اپنی ازواج کا نان نفقہ واجب ہے جیسے زندگی شریف میں تھا چنانچہ بخاری وغیرہ کتب احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ ہم کسی کے وارث نہ کوئی ہمارا وارث،ہمارے بعد ہماری ازواج کے نفقہ اور عُمّال کی تنخواہوں سے جو بچے وہ صدقہ ہے۔

(۱۱)حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب تک میرے حجرے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق دفن رہے میں بے حجاب وہاں جاتی تھی مگر جب سے جناب عمر دفن ہوئے میں بے حجاب جاتے عمر سے شرماتی ہوں،اگر وہ حضرات زندہ نہیں تو یہ شرم کس سے ہے۔

(۱۲)بعض اولیاء کے اجسام صدہا برس کے بعد اب بھی درست دیکھے جاتے ہیں۔اگر وہ بالکل مردے ہیں تو جسم گلتا کیوں نہیں۔حیات نبی پر یہ بارہ دلائل ہیں۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد دوم ص ۳۱۹تا۳۲۱؍نعیمی کتب خانہ گجرات)

نیز درس قرآن میں تحریر فرما تے ہیں کہ ہر زبان کا یہ قاعدہ مقرر ہے کہ زندوں کے لئے کچھ اور الفاظ استعمال کرتے ہیں مردوں کے لئے کچھ اور چنانچہ اردو میں مردوں کے لئے تھا ۔فارسی میں بود ۔عربی میں کان۔انگریزی میں واز was۔وغیرہ الفاظ استعمال ہو تے ہیں ۔اور زندوں کے لئے اردو میں ہے ۔فارسی میں ہست ۔انگریزی میں از is۔وغیرہ ہیں ۔چنانچہ زندے کی حکایت یوں کرتے ہیں فلا بڑا اچھا ہے عالم ہے سخی ہے باد شاہ یا وزیر ہے ۔لیکن بعد موت کہاجا تا ہے کہ وہ اچھا تھا ۔سخی تھا ۔مردے کو کو ئی ہے نہیں بولتا اور ہے بو لنے والے کو جھوٹا کہا جا تا ہےغرضیکہ زندہ کی حکایت ہے اور تھامردہ کی ۔

جب یہ بات سمجھ لیا تو غور کرو کہ اسلام کا کلمہ شریف ہے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہﷺ‘‘یعنی اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعا لیٰ علیہم اجمعین نے یہی کلمہ پڑھا اذان اور نماز میں بھی اس کی گوا ہی دی گئی اور وفات شریف سے اب تک کلمہ یہی رہا اور قیامت تک یہی رہے گا اگر حیات النبی ﷺ درست نہ ہو آپ ﷺ کی موت کا عقیدہ رکھا جا ئے تو تمام مسلمانوں کا کلمہ نماز اذان سب غلط ہو گئے اور تمام لوگ اس کلمہ میں جھوٹے ہو گئے بلکہ اب کلمہ یوں ہونا چا ہئے تھا ’’ کان محمد رسول اللہ  ﷺ‘‘محمد ﷺ اللہ کے رسول تھے۔حضرت انسان مسلمان پیچھے ہو تا ہے اذان اور نماز پیچھے ادا کرتا ہے حیات النبی ﷺ پہلے مان لیتا ہے مسئلہ حیات النبی ﷺایمان اور نماز وغیرہ کی اصل ہے ۔(رسائل نعیمیہ ص ۴۵۶)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضورر ﷺ ودیگر انبیائے کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں رزق دئے جا تے ہیںجہاں چاہتے ہیں آ تے جا تے ہیں دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور کلام بھی کرتے ہیں ۔اور جو کہے مر کر مٹی میں مل گئے وہ گمراہ بد دین ہے ۔اللہ تعا لیٰ جل شانہ اپنے حبیب صاحب لولاک ﷺ کے صدقہ و طفیل سمجھنے کی تو فیق عطا فرما ئے ۔آمین یا رب العلمین بجاہ سید المرسلین  ﷺ

کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحدی 


pdf کے لئے یہاں کلک کریں 

فتاوی مسائل شرعیہ 



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads